Horror
all age range
2000 to 5000 words
Urdu
Story Content
دور دراز پہاڑوں کے دامن میں چھپا ہوا تھا ایک گاؤں – 'گمنام گاؤں'۔ دیکھنے میں تو یہ گاؤں بڑا پرسکون اور خوبصورت تھا لیکن اس کی خاموشی میں ایک گہرا راز چھپا ہوا تھا۔ گاؤں کے لوگ بڑے سادہ اور محبت کرنے والے تھے، مگر ان کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کا خوف تھا۔
یہ families بہت پہلے سے یہاں آباد تھیں اور ایک لمبے عرصے سے ان کے آباؤ اجداد نے یہاں زندگی گزاری تھی
حالیہ عرصے میں، گاؤں میں کچھ عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے تھے۔ راتوں کو عجیب آوازیں سنائی دیتی تھیں، گھروں کے دروازے خود بخود کھل جاتے تھے، اور کبھی کبھی گاؤں والوں کو کسی سایے کا احساس ہوتا تھا جو ان کا پیچھا کر رہا ہو۔ لوگوں نے ان واقعات کو برا شگون سمجھا اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے لگے۔
ایک دن، ایک family اس گاؤں میں آئی۔ احمد، اس کی بیوی سارہ، اور ان کا چھوٹا بیٹا علی، شہر کی بھاگ دوڑ سے دور، ایک پرسکون زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ انہوں نے گاؤں میں ایک پرانا گھر خریدا اور وہاں منتقل ہو گئے۔
گھر پرانا ضرور تھا، لیکن بڑا خوبصورت تھا۔ اس کے گرد ایک بڑا سا باغ تھا جس میں پھولوں اور پھلوں کے درخت تھے۔ احمد اور سارہ نے سوچا کہ یہ جگہ ان کے بیٹے علی کے لیے بہترین ہے جہاں وہ آزادی سے کھیل سکتا ہے اور فطرت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
شروع کے کچھ دن تو بڑے اچھے گزرے۔ گاؤں والے ان سے محبت سے پیش آئے اور انہوں نے احمد اور سارہ کو گاؤں کے بارے میں بہت سی کہانیاں سنائیں۔ لیکن جلد ہی احمد اور سارہ کو احساس ہوا کہ گاؤں والے ان سے کچھ چھپا رہے ہیں۔
ایک رات، احمد نے ایک عجیب آواز سنی۔ وہ اٹھا اور آواز کی طرف چل دیا۔ آواز گھر کے پچھلے حصے سے آ رہی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ باغ میں ایک سایہ کھڑا ہے۔ سایہ بڑا اور خوفناک تھا اور اس کی آنکھیں لال تھیں۔ احمد خوف سے کانپ اٹھا اور واپس گھر کی طرف بھاگا۔
اس نے سارہ کو جگایا اور اسے ساری بات بتائی۔ سارہ نے پہلے تو اس کی بات پر یقین نہیں کیا، لیکن پھر اس نے بھی کچھ عجیب واقعات محسوس کرنا شروع کر دیے۔ علی رات کو ڈر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ گھر میں چیزیں اپنی جگہ سے غائب ہو جاتی تھیں اور کبھی کبھی دروازے خود بخود کھل جاتے تھے۔
احمد اور سارہ نے گاؤں والوں سے ان واقعات کے بارے میں پوچھا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بس خاموش رہے اور ان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتے رہے۔ احمد اور سارہ کو اندازہ ہو گیا کہ گاؤں والے ان سے کچھ چھپا رہے ہیں۔
انہوں نے خود ہی گاؤں کے راز کو جاننے کا فیصلہ کیا۔ احمد نے گاؤں کی تاریخ کے بارے میں معلومات جمع کرنا شروع کر دیں۔ اس نے پرانی کتابیں پڑھیں اور گاؤں کے بزرگوں سے بات کی۔
کچھ دنوں بعد، احمد کو پتہ چلا کہ گمنام گاؤں میں ایک المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ کئی سال پہلے، گاؤں میں ایک ظالم شخص رہتا تھا۔ وہ لوگوں پر ظلم کرتا تھا اور ان سے زبردستی پیسے لیتا تھا۔ ایک دن، گاؤں والوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور اسے مار ڈالا۔ مرنے سے پہلے، اس شخص نے گاؤں والوں کو بددعا دی کہ ان کی نسلیں کبھی خوش نہیں رہیں گی۔
احمد کو پتہ چلا کہ اس ظالم شخص کی روح اب بھی گاؤں میں بھٹکتی ہے۔ وہ لوگوں کو ڈراتا ہے اور انہیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ احمد کو یہ بھی پتہ چلا کہ گاؤں والے اس روح کو خوش کرنے کے لیے ہر سال ایک قربانی دیتے ہیں۔
احمد اور سارہ یہ جان کر بہت ڈر گئے۔ وہ اس گاؤں میں مزید نہیں رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا۔
لیکن جانے سے پہلے، انہوں نے اس روح کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے گاؤں کے بزرگوں سے بات کی اور ان سے مدد مانگی۔ پہلے تو گاؤں والے ڈر رہے تھے، لیکن پھر وہ احمد اور سارہ کی مدد کرنے پر راضی ہو گئے۔
سب گاؤں والے مل کر اس جگہ پر گئے جہاں اس ظالم شخص کو مارا گیا تھا۔ انہوں نے وہاں ایک بڑا گڑھا کھودا اور اس میں لکڑیاں ڈال دیں۔ پھر انہوں نے لکڑیوں کو آگ لگا دی۔
جب آگ جلنے لگی تو گاؤں والوں نے ایک خاص رسم ادا کی۔ انہوں نے اس ظالم شخص کی روح سے معافی مانگی اور اس سے درخواست کی کہ وہ ہمیشہ کے لیے گاؤں کو چھوڑ دے۔
کچھ دیر بعد، آسمان میں ایک کالی گھٹا چھا گئی۔ بجلی چمکنے لگی اور گرجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اچانک، ایک زوردار ہوا چلی اور آگ بجھ گئی۔
گاؤں والے خوف سے کانپنے لگے۔ انہیں لگا کہ روح اب بھی وہاں موجود ہے۔ لیکن پھر، آسمان سے ایک سفید روشنی نکلی اور وہ روشنی اس جگہ پر پڑی جہاں آگ جل رہی تھی۔
جب روشنی ختم ہوئی تو گاؤں والوں نے دیکھا کہ وہاں ایک فرشتہ کھڑا ہے۔ فرشتے نے گاؤں والوں کو بتایا کہ ان کی بددعا ختم ہو گئی ہے اور اب وہ آزاد ہیں۔
فرشتے نے پھر آسمان کی طرف دیکھا اور غائب ہو گیا۔ اس کے بعد سے، گمنام گاؤں میں کبھی کوئی عجیب واقعہ پیش نہیں آیا۔ گاؤں والے خوشی سے رہنے لگے اور انہوں نے ہمیشہ احمد اور سارہ کو یاد رکھا جنہوں نے ان کو برائی سے بچایا تھا۔
لیکن کیا واقعی میں ایسا ہوا تھا؟ کچھ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ راتوں کو اب بھی اس ظالم شخص کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اس family کا آنا اور گاؤں میں قیام محض ایک اتفاق نہیں تھا بلکہ روح کو طاقت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اب گاؤں پہلے سے زیادہ خاموش اور پرسرار ہے۔ اس کی تاریک تاریخ گاؤں کی گلیوں اور گھروں میں سرگوشیوں کی طرح گونجتی رہتی ہے۔ ہر سایہ اور ہر سرسراہٹ، ہر ہلکی سی دستک پر لوگ اس لمحے کا انتظار کرتے ہیں جب اگلا families اپنی نادانی میں ان کے درمیان آ کر ان کے جال میں پھنسے گی۔ کیا اس گاؤں کو واقعی سکون ملا یا یہ محض سکون کا ایک فریب ہے؟
اس کے علاوہ، کیا families سے متعلق انکشاف یہ ثابت نہیں کرتا کہ ایک سے زیادہ متاثرین ہوتے ہیں?